لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) سمندر کی بے رحم لہروں کی نذر ہونے جانے والا3سالہ ایلان تو چلا گیا لیکن اپنے پیچھے عالمی سماج کی مکاری، عیاری اور بے حسی کی داستانیں بے نقاب کر گیا۔شام میں داعش کے ظہور کے بعد اب تک 4کروڑ سے زائد شامی باشندے ملک چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ترکی، لبنان، اردن، مصر اور عراق میں قائم پناہ گزینوں کے کیمپوں میں مقیم ہیں اور اب تک لاکھوں افراد ترکی سے سمندری راستے کے ذریعے یونان پہنچ کر یورپ میں داخل ہو چکے ہیں اور اسی کوشش میں ہزاروں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جن میں معصوم ایلان، اس کا بھائی غالب اور والدہ بھی شامل ہیں۔
ایلان کی موت کے بعد جرمنی اور آسٹریا جیسے غیرمسلم ممالک نے بھی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں لیکن تاحال 5امیر ترین عرب ملک ایسے ہیں جنہوں نے ایک بھی شامی پناہ گزین کو اپنے ملک میں نہیں گھسنے دیا۔ ان عرب ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور بحرین شامل ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ادارہ برائے پناہ گزین کے سربراہ شیرف الصید علی نے ان 5عرب ملکوں کے کردار کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے اس بحران میں ان عرب ملکوں کا ریکارڈ رسوا کردینے والا ہے اور ان ملکوں نے اپنے ذہنی طور پر پست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
شیرف الصید علی نے کہا کہ جب پناہ گزینوں کو ان عرب ممالک نے جگہ نہ دی تو ان کے پاس اور کوئی راستہ نہ بچا تھا کہ وہ سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے اور رواں سال اب تک اس کوشش میں3ہزار سے زائد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان 5عرب ممالک کو احساس کرنا چاہیے اور شام کے پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں جگہ دینی چاہیے۔ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔